یک خبر غم انگیز. گردنه سهیل رجا چنین در Qta

وی پی ان">



کرنل سہیل شہید ہو گئے ایک اور جانباز اس پاک سرزمین کا سپوت اس دھرتی سے کیا ہوا وعدہ وفا کر گیا۔۔۔ در IBO آغوش است!

اور اس وقت میں ان گھٹیا ترین دو ٹکے کے دانشوروں کو بتانا چاہتا ہوں کہ جب تم چاند رات کو بیوی بچوں کے ساتھ 12 بجے تک شاپنگ میں مصروف تھے جس وقت تم فائیو سٹار ہوٹل میں ڈنر کرنے کے بعد بچوں کی فرمائش پر شہر کی سب سے مشہور آئس کریم بار کی طرف رخ کیے ہوئے تھے،جب تم نے رات دو بجے بچوں کو گھر ڈراپ کیا اور اپنے یاروں دوستوں کے کے ساتھ پارٹی کرنے کے لیئے اپنے ہی جیسی سستی اور گھٹیا شراب خریدی اور چار اپنے ہی جیسے دانشوروں کے ساتھ ایک ہوٹل کے کمرے میں نشے میں دھت بقیہ پوری رات گزار دی میں اس رات کا احوال بتانا چاہتا ہوں۔۔!

اور اس اگلے دن کا احوال بتانا چاہتا ہوں۔۔۔! جب تم نے اپنی اندر کی غلاظت باہر نکالنے کے لیئے فیسبک وال کو پلید کرنا شروع کیا۔۔تمہیں یاد آیا کہ میں نے تو لکھنا تھا فوج کا بجٹ کتنا ہے،میں نے تو لکھنا تھا،دہشتگردی کے پیچھے وردی ہے،پھر اے وطن فروش تم نے لکھا کہ فوج چوکیدارے کی تنخواہ لیتی ہے تیرا گھٹیا ذہن ابلا ہے اور اس میں سے بغض فوج ایسا باہر آیا کہ تو بھول گیا کہ کل رات جب چاند نظر آنے پر بچوں کا ریوڑ گاڈی میں لادے پورے شہر میں گھمسان ڈال رہا تھا جب ایک ایک بچے کی فرمائش پر وارے جا رہا تھا اس وقت دور کہیں میلوں دور۔۔۔!

کرنل سہیل کی بیوی چھ ماہ سے گھر نہ آئے ہوئے باپ کی وجہ سے روٹھے ہوئے بچوں کو منا رہی تھی،،انہیں ماه رمضان کی مبارک دے رہی تھی اس وقت جب مجموعه کے کالے دانشور وال کالی کررہے تھے کرنل سہیل کی بیوی بچوں کے چہرے پر ایک مسکراہٹ لانے کی کوشش میں مصروف تھی
انہیں یہ دلاسہ دیتے ہوئے بیٹا فون آیا ہے عید پر آئیں گے نا پاپا وہ بچوں سے نظریں چرا رہی تھی کیونکہ گزشتہ روز آنے والا فون گواہ تھا،پوری رات تک برسنے والی آنکھیں گواہ تھی،انکھوں سے تکیے تک کا سفر خاموشی سے طے کرنے والے انوکھے موتی گواہ اور ان کو نرمی سے سینچنے والا وہ تکیہ گواہ تھا کہ اس بار بھی عید اکیلے گزرے گی اس بار بھی بچے راہ تکتے رہ جائیں گے۔۔۔!

“” سنو مبارک نہیں دو گی جانتی ہو اس وطن عزیز کی پکار پر لبیک کہنے کا کیسا شاندارموقع ملا ہے،مجھے سلیکٹ کیا گیا ہے وہ بتا رہا تھا کہ اسے بلوچستان کے کچے علاقوں میں آپریشن ردالفساد کا انچارج مقرر کیا گیا اس کی آواز میں موجود جوش،اس کے لہجے کی خوشی نے اسے پلکوں سے امنڈھتے آنسو برخی لینے ہزاروں شکووں کے باوجود ہونٹ هم لینے پر مجبور کر دیا اور پوری قوت مجتمع کر صرف یہی کہہ سکی مبارک ہو”” اور ابھی بچوں سے انکھیں چراتے ہوئے بڑی مشکل سے سمجھا بجھا کر تھوڈا کھانا کھلا کر سلانے کے بعد یہ سوچتے ہوئے فون اٹھایا کہ پوچھتی ہوں شاید ایک دن کے لیئے ہی عید پر آ جائیں تو بچوں سے نظریں ملا سکوں ایک نظر دیکھ لیں تو عید پر عید ہو جائے۔۔۔!

مگر ڈیڑھ گھنٹے کی مسلسل کوشش کے بعد تھک ہار کر فون رکھ دیا کیونکہ نمبر مسلسل آف جا رہا تھا اگلی صبح سحری بناتے ہوئے فون کی کی گھنٹی سن کر جلدی سے چپاتی توے پر ہی چھوڑ کر فون کی طرف لپکی کال ریسیو کر کے فون کان سے لگایا دوسری طرف سے کچھ کہا گیا۔۔۔! وہ گنگ ہو گئی پیروں تلے سے زمین نکل گئی اور ایک دم سے وجود اتنا بھاری ہو گیا کہ ٹانگوں نے بوجھ اٹھانے سے انکار کر دیا اور وہ کٹے ہوئے شہتیر کی مانند زمین پر آ گری اس کی بھابھی بھاگتی ہوئی آئی اس سنمبھالنے اور اٹھانے کی کوشش کرنے لگی کرنل سہیل کی والدہ جو پاس ہی مصلہ بچھائے ذکر میں مصروف تھی انہوں نے جلدی سے دھڑکتے دل کے ساتھ فون کو اٹھا کر کان سے لگایا اور اگلے ہی کمحے ایک آنسو ان کی آنکھوں سے لڑھکتا ہوا جائےنماز میں جذب ہو گیا وہ بنا کچھ کہے وہی مصلے پر سجدہ ریز ہو گئی انکھوں سے موتیوں کی لڑیاں اتر رہی تھی اور جسم ہچکولے کھا رہا تھا اور اینها پر ایک ہی وردِ مسلسل اے اللہ قبول فرما،اے اللہ قبول فرما۔۔۔ میں بتانا چاہتا ہوں۔۔! آج کرنل سہیل کی تقدس جنازہ اداکر دی گئی کرنل سہیل اور اس کے ساتھ اس کی بیوی بچوں کی خوشیوں کو بھی سپرد خاک کر دیا گیا کیا کسی پرکوئی فرق پڑاکیا کسی کو معلوم بھی ہے کہ یہ بظاہر دکھنے والی ایک فرد کی شہادت تھی محلّ اس وطن عزیز پر ایک خاندان قربان ہوا۔۔ میں بتانا چاہتا ہوں۔۔۔! کہ کرنل سہیل کی تین بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے جو اب یتیم کہلاتے ہیں،میں مردہ ضمیر لکھاری کو ڈالروں کی مہک سونگھتی ناک اور اس کے زیر اثر کتے کی طرح بھونکتی ہوئی اینها کے حامل اس دانشگرد کو بتانا چاہتا ہوں کہ کرنل سہیل کی بیوی اب بیوہ کہلاتی ہے 24 گھنٹے گزر گئے بچے رو رو کر خود کو ہلکان کر چکے ہیں،انسو ختم ہو گئے اور گھلا رند گیا ہے،،بیٹیوں کو ابھی تک یقین نہیں آ رہا کہ جس باپ کی آس میں دن گن رہی تھیں وہ اب کبھی نہیں آنےوالا،بیوی کمرے میں اکیلے گم سم بیٹھی اندھیرے میں نظریں گاڑھے ہوئے ذہن میں بس یہی الفاظ گونج رہے۔۔۔ “” سنو مبارک نہیں دو گی۔۔۔مجھے آپریشن کے لیئے سلیکٹ کیا گیا ہے۔۔۔سنو مبارک نہیں دو گی۔۔۔سنو۔۔۔”” اس کے پاپا اسے ڈھونڈتے ہوئے کمرے میں داخل ہوئے اور لائٹ جلائی لائٹ کے ساتھ موجود ٹی وی کا بٹن بھی دب گیا۔۔وائس آف امریکہ برخی ٹی ایم کے جلسے کی نشریات دکھا رہا تھا جس میں منظور پشتین اور اس کے حواری زور و شور سے نعرہ لگا رہے تھے۔۔ یہ جو دہشتگردی ہے اس کے پیچھے وردی ہے الفاظ تھے محلّ پگھلتا ہوا سیسہ تھا جو کانوں میں انڈھیل دیا گیا۔۔ اور میں بتانا چاہتا ہوں۔۔! کہ اس وقت اسے محسوس ہوا کتنے جھوٹے ہیں وہ لوگ جو کہتے ہیں موت ہی کی اذیت سب سے بڑھ کر ہے۔۔۔ اور میں ان بے ضمیر دانشوروں،ان غداروں اور وطن فروشوں کو بتانا چاہتا ہوں،،میں بتانا چاہتا ہوں تاکہ ان کے ڈوب مرنے کے لیئے کافی ہو۔۔ سنو میں بتانا چاہتا ہوں اس ماں کا ظرف جس نے کندھے سے پکڑ کر پوتے کو کھڑا کیا میں بتانا چاہتا ہوں اس بیوی کا ظرف کہ جب یہ نعرہ گونج رہا تھا یہ جو دہشتگردی ہے اس کے پیچھے وردی ہے اس نے کرنل سہیل شہید کی کیپ اٹھائی اور اپنے بیٹے کے سر پر پہنا دی۔۔۔!

لینک دانلود